احتساب
سوچتی ہوں کہ قلم توڑ وں
لہو سے لکھوں
صفحہء ء زیست پہ غم کا نوحہ
دور۔پرآشوب ہے
ہر روز نیا ظلم لئے
شام اتری ہے یہاں
شام۔غریباں کی طرح
خیمے جلتے ہیں
بدن سر سے الگ ہوتے ہیں
بہنیں لٹتی ہیں تو
بھائی کے جگر کٹتے ہیں
ماں کی آہوں سے
یہ شب گونجتی ہے
ہر طرف اک صف۔ماتم ہے بچھا
خون۔ناحق ہے یہاں دور تلک
پر کوئ دست، نہ ناخن
نہ ہی قاتل کا نشاں
کیسا قاتل ہے کہ
ملتا ہی نہیں کوئی سراغ
بے حسی ایسی
بصیرت نہ بصارت
نہ سماعت نہ دماغ
کہ بڑھے بڑھ کے
دبوچے قاتل
اور مظلوم کو دے انکا حساب
آسماں آج تو چپ ہے
یہ زمیں بھی خاموش
سوچ لو
دور نہیں وقت کہ جب
ہم کو
دینا ہے مظالم کا جواب۔۔۔۔
20-8-19