نئی غزل
جو اپنی خطاوں پہ پشیماں نہیں ہوتے
بنتے ہیں سبب درد کا، درماں نہیں ہوتے
احساسِ سے بیگانہ ہیں جو لوگ یہاں پر
آئینے انہیں دیکھ کے حیراں نہیں ہوتے
کچھ لوگ ستائے ہوئے قسمت کے مسافر
کرتے ہیں سفر، صاحبِ ساماں نہیں ہوتے
ہاری ہوئی بازی میں محبت کے کھلاڑی
خود آپ اجڑجاتے ہیں ویراں نہیں ہوتے
جب تک ہے میرا جسم یہاں قید نفس میں
یہ گردشِ لمحات تو آساں نہیں ہوتے
رہتی ہے وہی آنکھ بھی ہر خواب سے عاری
جس گوشہءِ دل میں کوئی ارماں نہیں ہوتے
رضیہ سبحان
7-4-21